xxx

xxx

cuson dogi ko chudnay laga

Image result for boy sex with bitchImage result for indian dasi sexImage result for indian dasi sex

میری ممانی جو کہ میری ساس بھی ہیں اپنی بھانجی کی شادی میں شمولیت کیی خاطر
آج صبح کی پہلی بس سے شیخوپورہ گئی تھیں اور میں گھر میں اکیلی رہ گئی ایسا اتفاق
پہلے بھی دو چار بار ہوا تھا جب میں گھر میں اکیلی رہی اس لئے ممانی کو نہ مجھے کوئی
فکر ہوئی ، میرے ماموں جوکہ میرے سُسربھی ہیں ایک سیمنٹ فیکٹری میں سیکورٹی گارڈ ہیں وہ ہفتہ ایتوار کو گھر آتے ہیں اور میرے خاوند بسلسلہ روزگار دبئی میں ہوتے ہیں ۔ ہماری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں میں ماں نہیں بن سکی اس وقت میری عمر بتیس سال ہے ۔ میں اور ممانی جان گھر میں رہتی ہیں ۔ ہم فیصل اباد کے ایک مضافاتی گاؤں میں
رہتے ہیں ۔ ۔ تھوڑی سی زمین ہے جو مزارعے کاشت کرتے ہیں دو گائے چندایک بکری کچھ مرغیاں ایک کتیا ہے جس کو ہم پپی کہہ کر بلاتے ہیں ۔ ایک کتا بھی تھا اور ان کی جوڑی تھی مگر ایک رات چوری کی نیت سے کوئی چور ڈاکوآئے مگر ٹائیگر نے ان کو گھر کے قریب نہ پھٹکنے دیا اور وہ جاتے جاتے اس کو گولی مار گئے اور پپی اکیلی رہ گئی ۔ اس ہفتہ جب ماموں آئے تھے تو ممانی جان سے کہہ رہے تھے پپی گرم ( قط آنے) ہونے والی ہے اس کا خیال رکھنا کہیں کسی اوارہ کتے کو نہ مل بیٹھے ۔ ان مویشیوں کی وجہ سے مجھے گھر رہنا پڑا تھا اور ممانی جان کی جمعہ کو واپسی ہے ۔ یہ دو چار دن اکیلا ہی گذارنا ہیں پپی واقعی گرم تھی رہ رہ کر اسے پیشاب آرہا تھا اس کی خاص جگہ بھی لال ہورہی تھی اور گاہے بگاہے بیٹھ کر وہ اسے چاٹنے بھی لگتی تھی ۔ میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اور گھر کے کام کاج کے ساتھ جانوروں کو چارہ وغیرہ ڈالا ۔ ہمسائی ماسی رشیدہ آگئی کچھ دیر وہ رہیں اور گپ شپ میں وقت پاس ہوگیا ۔ ماسی رشیدہ کا گھر ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہے اور دوسرا دروازہ ان کا پڑتا ہے ہمارے گھر کے صحن کی دیوار چھ فٹ اونچی ہے کچھ کہنا سننا ہو تو اونچا بول کر ایک دوسرے سے بول لیتے ہیں ۔ دیوار کے آخر میں بیرونی دروازوں کے قریب دیوار گری ہوئی ہے جس کی وجہ ہم اندر اندر ایک دوسرے کے ہاں آسکتے ہیں ممانی جان اور ماسی رشیدہ دونوں بہنیں بنی ہوئی اور بہت دوستی ہے ان دونوں
میں ۔ ماسی رشیدہ کا خاوند آرمی میں ہے اور ایک جوان بیٹا ہے جو کہ ان کے ساتھ رہتا ہے
بیٹےکا نام تو پرویز ہے مگر سب اسے پیجا کہہ کر ہی بلاتے ہیں یعنی اس کا نک نیم پیجا ہے
ماں باپ بہت اچھے ملنسار اور شریف لوگ ہیں مگر پیجا بدنام ہے کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتا ۔ مگر ہم لوگوں کو تو اس نے عزت ہی دی جب بھی ملتا مجھے باجی اور ممانی جان کو
خالہ کہہ کر بلاتا کئی بار تو خیال آیا کہ بیچارہ بدنام ہے ورنہ یہ تو شریف ہے ۔ مگر جب کوئی بدنام ہوجائے تو وہ زندگی بھر بدنام ہی رہتا ہے چاہے لاکھ صفائی دیتے رہیں ۔ خیر سردیوں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں دیہات میں تو ویسے ہی جلد سُناٹا ہوجاتا ہے ۔ میں سات بجے ہی کھانا وغیرہ کرکے مویشیوں کو اندر باندھ کر اپنے کمرے میں آگئ اور پپی( کتیا )
بھی کمرے لے آئی ۔ مبادہ کوئی آاوارہ کُتا اس کی عزت افزائی نہ کردے ۔ ابھی آٹھ نہ ہوئے
تھے کہ پپی کبھی دروازے کو جاتی اور کبھی میری طرف لپکتی ۔ وہ بے کل سی ہو رہی تھی
Image result for boy sex with dog
Image result for indian dasi sexImage result for indian dasi sexمیں أٹھ کر بیٹھی کہ دیکھوں کیاتکلیف ہے اس کو لالٹین جلائی تو باھر کسی کتے کے 
غرانے
کی آوز آئی میں سمجھ گئی کہ کتی نے کتے کی آواز سنی ہوگی اسی لئے ملنےکو تڑپ ری ہے
سوچا کہ دروازہ کھول کے دیکھوں کتا کدھر سے آیا ہے ابھی دروازہ پورا نہ کُھلا تھا کہ پپی
میری ٹانگوں کے درمیاں سے نکل کر باھر کو لپکی ۔ اور سامنے کھڑے کتے کے ساتھ جاملی
میں نے کتے کو پہچان لیا وہ ماسی رشیدہ کا ہی کتا تھا اوررات کو اکثر ہمارے ہاں آکے پپی سے کھیلت رہتا تھا یعنی دونوں فرینڈز ہی تھے ۔ مجھے تسلی ہوگئی کہ کسی آوارہ کی بجائے اچھی نسل کےکتے سے پپی کا ملاپ اچھے نسلی کتوں کی پیدائش بنے گا۔ پیجا کا کتا بھی بھگاڑی تھا پپی کی طرح یعنی دونوں ایک ہی نسل کے تھے ۔ سردی تھی اس لئے کمرے کے اندر آکےدروازہ بند کردیااور دروازے کی جُھری سے باھر دیکھنے لگی کہ دیکھیں کرتے کیا ہیں ۔ کتی اور کتا ایک دوسرے کوسُونگھ رہے اور اٹکھیلیاں کر رہے تھے کتا اس کی جائے مخصوصہ سونگھنے کی کوشش کرتا تو پپی اپنی دُم دبا لیتی جیسے شرما رہی ہو یا اسے ٹیز کر رہی ہو آخر تھوڑی دیر بعد کُتی کو پیشاب آیا تو کتے کو موقع مل گیا کہ وہ وہاں سونگھ سکے اور اسی دوران کتےنے ایک آدھ بار چاٹ بھی لیا اب پپی کی جھجھک ختم ہوتی جا رہی تھی اور کبھی کھڑی ہو کر کتے کو سونگھنے اور چاٹنے بھی دیتی یہ سب دیکھتے ہوئے میں بھی کچھ محسوس کر رہی تھی ارادے کےبغیر میرا ہاتھ شلوار کے اندر جا کے کھجانے لگا اور میں آنکھیں بند کرکے سواد لینے لگی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کتی کتے کو بھی دیکھ لیتی ۔ کتا کتی کےاوپر اپنے
سٹائل میں لگانے کی کوشش میں تھا اور پپی کبھی کھڑی رہتی کبھی آگے یا دائیں بائیں کھسک
کر کتے کےوار پچا رہی تھی ۔ کتے نے اپنی اگلی دونوں ٹانگوں سے پپی کی کمر جکڑ رکھی تھی اور کتیائی میں مصروف تھا ادھر میری کتی شے کو آگ لگی ہوئی تھی میں نے ایک ہاتھ
سے اپنے دونوں گیندوں کو باری باری دبانا شروع کردیا اور دوسرے ہاتھ سے اسے کھجانے
اور مسلنے میں لگی ہوئی تھی اور بھر دیکھا تو کتا پپی کے اندر داخل کرچکا تھا اور پپی
بڑے مزے سے کھڑی سواد لے رہی تھی میری حالت پتلی ہوتی جا رہی تھی میں اپنے ہی ہونٹ کاٹ رہی تھی سردی میں بھی میری پیشانی پسینہ سے بھیگی ہوئی تھی اتنے میں پپی کی ہلکی غراہٹ سُنی آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ دونوں ٹانگہ بن چکے تھے دونوں متضاد رخ اختیار کر چکے تھے اب مجھ سےمزید برداشت نہ ہوسکااور میں چارپائی پر آکر لیٹ گئی اور
مکمل برہنہ ہوکر اپنے آپ سے کھیلنے لگی آٹھ ماہ پہلے میرے خاوند دبئی گئے تھے
اور تین ماہ کے بعد انہوں نے ایک ماہ کے لئے آنا ہے جب بھی موقع ملے خودسے کھیلنے
کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں مگر آج کی بات الگ کہ اکیلی اور جتنا مرضی چاہوں خود
سے کھیل سکتی ہوں ۔ میں مساج کرتے کرتے انگلیوں کا استعمال کرنے لگی اور جلد ہی
پانی چھوڑ بیٹھی ۔ میں غنودگی میں چلی گئی مگر میرا ہاتھ اب بھی وہاں مساج کرتا رہا
اچانک محسوس ہوا باھر کوئی بولا ہے میں نے جلدی سے انگلی باھر نکالی اور شلوار
قمیض پہن کر دوپٹہ لیا اور دروازے کی جُھری سے باھر دیکھا ۔ تو حیران رہ گئی وہ
ماسی رشیدہ کا بیٹا پرویز عرف پیجا پپی کو پکڑے کھڑا تھا

2nd part
اچانک محسوس ہوا باھر کوئی بولا ہے میں نے جلدی سے انگلی باھر نکالی اور شلوارقمیض پہن کر دوپٹہ لیا اور دروازے کی جُھری سے باھر دیکھا ۔ تو حیران رہ گئی وہ ماسی رشیدہ کا بیٹا پرویز عرف پیجا پپی کو پکڑے کھڑا تھا
next...
..میں دروازہ کی جھریوں سے دیکھنے لگی کہ پیجا کیا کرنے آیا ہےکیونکہ اس کا کتا تو روز رات کو پپی کے ساتھ رہتا تھا۔ اچانک پیجا پپی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بیٹھ گیا اور پیپی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا وہ پپی کو اپنی طرف کھینچ لیتا اور بھینچ لیتا اس کا کتا قریب ہی بیٹھا گرم بھٹی سے نکلے ہوئے راڈ کو چاٹنے میں مصروف تھا پیجا کا ہاتھ اب پپی کی دم کی طرف بڑھتا اور گردن تک آجاتا پپی کی کتے
سے ملاپ کی وجہ دم کچھ أٹھی ہوئی تھی اور پیجا کا ہاتھ اس خاص جگہ کو چھونے لگا
اور ساتھ ساتھ پیجا پپی کو پیار بھی کرنے لگا اسے بوسہ بھی دیتا اور سینہ سے بھی لگاتا ۔ میں نے دیکھا کہ پپی نے نے اپنی دم اور اوپر کرلی ہے اور ٹانگیں چوڑی کرلی ہیں تب مجھے احساس ہوا کہ پیجا اس کو انگلی کر رہا ہے
مجھے حیرت کے ساتھ غصہ بھی آیا مگر میرا اپنا ہاتھ پھر شلوار کے اندر جا کر مساج کرنے
لگا میں نے اپنی ٹانگیں زرا کھول لیں اور انگلی اندر کرلی ۔ باھر دیکھا تو پیجا برابر مشغول تھا پھر اچانک پیجا اٹھا اور اپنی شلوار کھول لی جو کہ گھٹنے تک گر گئی اور پھر ییٹھ گیا
اب وہ پپی کو دم کی طرف سے اپنی طرف کھینچنے لگا مجھے بہت غصہ آیا اابھی اس نے اپنا پپی کی دم کےنیچے رکھا ہی ہوگا کہ میں نے حیل کی نہ دلیل دروازہ کھول کر باھر آگئی اور غصہ سے بولی ’’ پیجے یہ کیا کر رہے ہو تم ‘‘ ٹہرو میں ماسی رشیدہ کو آواز دیتی ہوں ۔ پیجا میری آواز سن کر گھبرا کر دوڑا تو شلوار ٹانگوں میں پھنس گئی اور وہ منہ کے بل گر پڑا ۔ میں نزدیک جاپہنچی تھی اور اسے ڈانٹنے لگی کہ کمینے یہ کیا حرکت کر رہاتھا تو اگر ابھی ماسی کو بلا لوں تو وہ سر جھکائے خاموش اپنے ہاتھں سے اپنا مال چھپانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں نے اپنی دھمکی دھرائی
نہیں باجی پلیز ایسا مت کرنا وہ گڑگڑا کر بولا ،
خبردار جو مجھے باجی کہا ، میں غصہ سے بولی ۔ أٹھو اپنی شلوار ٹھیک کرو بے شرم
جی باجی وہ اٹھتے ہوئے شرمندگی سے بولا ، جب وہ أٹھ رہا تھا تو اس کی کوشش تھی کہ
وہ ننگا نہ ہو مگر األجھی شلوار کو پہننے کے لئے اسے کھڑا ہونا پڑا اور میری ترسی ہوئی نظریں اس ڈنڈے کی جھلک ہی دیکھ سکیں جس کو دیکھے اور برتے آٹھ ماہ ہونے کو تھے ۔ پیجے کی حالت دیکھ کر میرا دل پسیج گیا کیونکہ شرمندگی سے وہ سر جھکائے کھڑا تھا ۔ میرا موڈ تو نارمل ہوگیا تھا مگر اس سے بناؤٹی غصہ سے بولی بولو ماسی کو بلاؤں یا صبح ا س سے بات کروں ۔، پلیز باجی امی کو نہ بتائیں وہ لجاجت سے بولا میں نے پھر غصہ سے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ مجھے باجی مت کہنا ،تم جیسے کو اپنا بھائی بنانے سے مرجانا پسند کرونگی میں نے غصہ سے کہا ، اب اندر چلو میں آتی ہوں میں رعب جھاڑتی ہوئی بولی ۔ جی باجی کہتے ہوئے میرے کمرے کی طرف بڑھا ۔ اسے شاید احساس نہیں تھا مگر گرنے کی وجہ سے اس کا گُھٹنا زخمی ہوا تھا کیونکہ جب وہ أٹھ رہاا تھا میں نے خون أس کے گھٹنے سے رستا دیکھا تھا ۔ میں دوسرے کمرے جسے ہم رسوئی کہتے ہیں میں گئی اور لالٹین جلا کر پانی گرم کیا اور ساتھ ہی چاہے کے لئے پانی رکھ دیا اور آگ دھیمی کردی ۔ وہیں بینڈیج اور پٹی وغیرہ تھی لے کر میں اپنے کمرے میں آئی تو دیکھا پیجا ابھی کھڑا تھا بیٹھا نہیں تھا ، اب بیٹھ جاؤ جناب تشریف رکھیں میں طنزا بولی جی باجی کہتے ہوئے وہ قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے بائیں گھٹنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پائینچہ اوپر کرلو جب اس نے شلوار خون سے بھیگی دیکھی تب اسے احساس ہوا کہ وہ گرتے ہوئے گھٹنا زخمی کر بیٹھا ہے ۔ أس نے جلدی سے پائینچہ اوپر کھینچا مگر وہ گھٹنے پرجا کر پھنس گیا ۔ باجی آپ رہنے دیں میں گھر جا کر اسے دھو لوں گا وہ
شرمندہ ہوتے ہوئے بولا ، گھر جاکر امی کو کیا بتاؤگے کیوں اور کیسے گرے تھے میں نے چبھتے ہوئےلحجہ میں کہا او پیجے نے سر جُھکا لیا ، اب دو ہی طریقے تھے کہ یا تو پائیچہ کو اس طرح پھاڑا جاتا کہ وہ أدھر(أدھیرا) جاتا یا پھر شلوار نیچے کی جاتی تاکہ گھٹنے کو گرم پانی سے دھونے کے بعد ینڈیج وغیرہ کیا جاتا ۔ اب اس نے مایوسی سے میری طرف دیکھا اور میں انجان بنی کھڑی رہی آخر اس نےکہا کیا کروں باجی ۔ میں زرا غصہ کرتے ہوئے بولی کہ تم کو پہلے بھی کہاا کہ مت کہو مجھے باجی ، ہاں شلوار اتارنی پڑے گی میں نے کہا ۔ وہ بولا یہ نہیں ہو سکتا کیوں نہ میں غسل خانہ میں جاکر خود اس کو بینڈییج کر لوں ۔ میں بولی دیکھ پیجے یہ گھٹنے کا معاملہ ہے ۔ یہ مشکل ہوگی اچانک اس کی سمجھ میں دوسری ترکیب آگئی اور پائنچہ تھوڑا سا
پھاڑ کر کھلا کرلیا اورر اسانی سے پائنچہ اوپر کرلیا اب میں گرم پانی کو لے کر اس کیی ااسکی ٹانگوں کے بیچ ممیں بیٹھ گئی اور روئی سے اس کے گھٹنے پر لگےخون کو صاف کیا جوکہ رسنا بند ہوچکا تھا اس نے ہلکی سے سی کی میں نے کچھ روئی گرم پانی میں ڈبو کر اس کا زخم صاف کیا زخم اتنا زیادہ نہیں تھا اس کے گھٹنے پر ہاتھ لگاتے ہوئے میرے جذبات برانگیختہ ہونے لگے مجھے ااسسے چھو کر کچھ کچھ ہوونے لگا نوجوانن کی ٹانگوں میں بیٹھ کر میں اسے گھٹے اور رانوں کو چھو رہی تھی ، میرا من مچلنے لگا ۔ دل چاہ کہ نوجوان کی ٹانگوں میں رات نکل جائے پھر خیالات کو جھٹک کر جلدی سے تھوڑی سی ہلدی أس پر لگائی اور بینڈیج کردیا ۔میری سوچ پھر مجھ بہکانے لگی میری طلب جاگ أٹھی تھی میرا ذھن شیطانی خیالات بُن رہا تھا اور میں آج کے موقع سے فائدہ أٹھانے کی ترکیب سوچنے لگی ۔ اتنےمیں ، میں جاتا ہوں باجی ، پیجا یہ کہتے ہوئے أٹھ کھڑا ہوا ، میں نے رعب سے کہا بیٹھو چاہے رکھی ہوئی ہے اور اس کا جواب سُنے بنا رسوئی میں چلی گئی ۔ پانی میں گُڑ اور چاہے کی پتی ڈالی اور ایک دو ابال آنے پر دودھ ڈالا اور آگ بالکل دھیمی کردی اور اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی کہ سیمو اتنا بڑا رسک نہیں لو گناہ کے ساتھ ساتھ بدنام بھی ہو سکتی ہو مگر بدن کی طلب کچھ اور تھی میاں کے ساتھ سوئے اورجسم کو شانت کئے ایک زمانہ بیت گیا تھا ۔ جس طرح کا آج موقع
ملا ہے ایسا موقع کبھی نہ مل سکے گا ۔ دماغ کچھ کہتا دل اور بدن کچھ اور ترغیب دیتے کہ آج نہیں تو کبھی نہیں ممیری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ٹانگوں کا سنگم بھٹی کی طرح سُلگ رہا تھا اس کیمدتوں ی طلب پوری کرنے کا آج سنہری موقع ملا تھا ۔ ایک نوجوان جو عمر میں مجھ سے کافی چھوٹا تھا کی صحبت کے لئےمیری گڑیا ضد کرنے پر أتر آئی
پھر بدنامی کا ڈر اور خوف سامنے آ کھڑے ہوتے کہ اگرکچھ ہو گیا تو کس کس کو جواب دوگی کہنےکو تو ماں بننے کے قابل نہ تھی مگر یقین سےکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ گاؤں میں دوچار ایسی مثالیں بھی ہیں کہ عورتوں کو بانجھ قرار دے کر طلاقیں بھی ہوگئیں مگر جب ان کی کسی اور جگہ شادی ہوئی ان سب کی گود ھری ہوگئی ۔ میرے میاں دکھنے اور کرنے میں پورےتھےمجھے ان سے کوئی شکایت نہ تھی جب بھی موقع ملا انہوں نے پوری طرح پیار اور محبت کے ساتھ آسودہ کیا مگر انکاچیک اپ کبھی نہیں ہوا ہوسکتا ہے جراثیم کمزور ہوں ان کے ۔ انہوں نے یا میرے سسرال میں سے کسی نے مجھے طعنہ مارا تھا نہ ہی کبھی ایسا
سوال أٹھا کہ مجھے سبکی ہوئی ہو ۔ مگر مجھے میری اپنی ماں بننے کی خواہش بے چین رکھتی مگر کیا کیا جا سکتا ہے ۔ یہی سوچ اور اسی ڈر کی وجہ سے میں نے فیصلہ کرلیا جب اتنا صبر کرلیا تو تین ماہ اور سہی مگر بدنامی اور رسوائی مول نہیں لوں گی ۔ ۔ ددودھ اببلنے لگا اس سے پہلے کہ چاہے باھر گرتی میں نے برتن کو اتار لیا چاہے تیار ہوچکی تھی مں نے تھوڑا سا گجریلہ جو کہ ہم سردیوں میں ضرور بناتے ہیں گرم کیا دوپیالیوں میں
چاہے ڈال کے میں کمرے میں داخل ہوئی اور پیجے کے سامنے ٹیبل پرپیالی اور گجریلہ رکھا
اور اپنی پیالی لے کر اپنی چارپائی پر آ بیٹھی میں نے پیالی سے ایک گھونٹ چاہے کا لیا اور پیجے کی طرف دیکھا جو سر جھکائے نیچے دیکھ رہا تھا مجھے محسوس ہوا جیسے وہ رو رہا ہو ، میں نے کہا، پیجے چاہے ٹھنڈی ہوجائیگی پی لو ، اس نے جی باجی کہہ کر پیالی منہ سے لگا لی مجھے ٹھنڈک محسوس ہوئی تو میں نے أٹھ کر درازہ بھیڑ دیا اور پھر چارپائی پر بیٹھ کر چاہے پینے لگی پیجے تم گجریلا کیوں نہیں لے رہے میں نے اس سے پوچھا ، جی باجی کہہ کر اس نے چمچ میں گجریلہ لیا تو مجھے حیرت سی ہوئی کہ کیا یہی وہ پیجا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ بُری سوسائٹی کی بدولت ماسی رشیدہ کابیٹا بھی بُری عادتوں میں مبتلا ہے چوری ڈاکے ریپ نہ جانے کیسے کیسے کاموں میں اس کانام لیا جاتا ہے ۔ مگر مجھے تو بھلے مانس ہی نظرآیا سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیا سمجھوں جیسے اس کی شہرت ہے یا جو سامنے بیٹھا ہوا ہے اگرچہ أسے غلط حرکت کرتے میں نے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا مگر وہ ایک وقتی بھول بھی ہوسکتی ہے اگر وہ ریپ جیسے کاموں میں مبتلا ہوتا تو ا تو ایک کتیا کے ساتھ کچھ کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ بُرا ہوتا تو مجھ اکیلی پر بھی وار کرتا رات کا وقت ایک تنہا عورت ذات اگر وہ کچھ زبردستی کر بھی لیتا تو بھی بدنامی کے ڈر سے زبان نہ کھولتی ۔ مگر یہ بھیگی بلی بن کے میرے سامنے بیٹھا تھا ۔ میں پیجے کو سجھنا چاہتی تھی اور اس کے بارے س جاننا چاہتی تھی اور اب میں اس کو غور سے دیکھنے لگی چھ فٹ کا انیس سالہ گبھرو چوڑی پیشانی گھنے ابرو بادامی آنکھیں لمبا اور
خوبصورت ناک پتلے ہونٹ سانولہ رنگ لئے ہوئے پیجا مجھے کوئی دوسرا نظر آنے لگا
پہلے والا پیجا جس سے آگاہ تھی کہیں کھوگیا اور نئے پیجے نے میرے لئے نیا جنم لیا
پرویز میں نے رسانیت سے اسے بلایا ، اس نے حیرانگی سے مجھے دیکھا اور بولا جی باجی
میں نے پوچھا ، کجھ پوچھوں تو سچ سچ بتاؤگے ،
جی باجی ، اس نے حسب توقع ’’جی باجی ‘‘ کہہ کرجواب دیا
تویہ بتاؤ کہ تم نے یہ گری ہوئی حرکت کیوں کی میں نے پوچھا
اس نے اپنا سر اور جھکا لیا اور تھوڑی دییر بعد بولا ،
بس باجی شیطان سرپر سوار ہو گیا تھا وہ شرمندگی سے خجالت بھرے لحجہ سے یہی کہہ سکا
دیکھو پرویز میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں مگر میں جاننا چاہونگی کہ لوگ تو کہتے ہیں
کہ تم ہر بُرے کام میں شامل ہوتے ہو گاؤں میں چوری ڈاکہ زنا بالجبر کے الزامات ہیں
تم پر اور تمہیں ابیسی حرکت کی کیا حاجت تھی کہ کتی کو بھی ۔۔۔۔
باجی پیجے نے سرجھکائے ہی کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے میرے ساتھی ایسے کام کرتے
ہیں جن کی وجہ سے میں بھی بدنام ہوگیا ۔ میری صرف یہ کمزوری ہے کہ چرس پیتا ہوں
جس کی وجہ سے ان کا ساتھی سجھا جاتا ہوں ورنہ ان کے دوسرےکسی کام میں میں نے
کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا ،
تو تم نے آج تک کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ، میں نے اس سے پوچھا
نہیں باجی میں نے تو آج تک کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں ، پیجا بیچارگی سے بولا
تو کیا کسی لڑکی سے تمہاری دوستی بھی نہیں اب یہ نہ کہنا کہ نہیں کیونکہ مجھے اعتبار
نہیں آئے گا میں مسکرا کر بولی ، پیجا نیچے دیکھ رہا تھا میری مسکراہٹ دیکھے بنا
تڑپ کربولا کہ باجی سچ یہی کہ میری کسی سے بھی دوستی نہیں
اوہ اسی لئے تم ہماری پپی کو ورغلا رہے تھے میں نے چبھتا ہوا سوال کیا مگر پیجے
نے جواب دینے کی بجائے سر جھکا لیا ۔ پرویز میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بتاؤ
کہ تم آج تک کسی لڑکی کے ساتھ نہیں سوئے ، اس نے میری طرف دیکھتےہوئے کہا کہ باجی
میں نے آج تک کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں مجھے اس کے لہجے سےاندازہ ہوا ہ وہ سچ بول رہا ہے مجھے نہ جانے کیوں خوشی ہوئی اس کی زبانی یہ سب جان کر ۔مجھے وہ اچھا لگنے
لگا اور میرے جذبات پھر ایک بار بہکنے لگے شیطانی خیالات نے یلغار کردی اتنا خوبصورت
جوان جو کہ کم ازکم مجھ سے بارہ تیرا سال عمر میں چھو ٹا ہوگا ۔ اس کے ساتھ کچھ موج مستی کرنے کے لئے اور اسے کچھ سکھانے کے لئے میرا انگ انگ پکارنےلگا ۔ رسوئی میں
اپنے آپ سے جو عہد کیاتھا اسے بھول جانے کی ترغیب دینے میں میرا دل جسم اور سامنے بیٹھے پیجےکی شخصیت سب ہی شامل ہوگئے میں پیالی میں بقیہ چاہے کو ایک ہی گھونٹ میں
ختم کرکے پیالی أٹھائے اس کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔

رسوئی میں
اپنے آپ سے جو عہد کیاتھا اسے بھول جانے کی ترغیب دینے میں میرا دل جسم اور سامنے بیٹھے پیجےکی شخصیت سب ہی شامل ہوگئے میں پیالی میں بقیہ چاہے کو ایک ہی گھونٹ میں
ختم کرکے پیالی أٹھائے اس کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔
بقیہ حصہ آئندہ ۔ون نائٹ سٹینڈ
میں ہولے ہولے جا کر پیجے کے سامنے ٹیبل پر پیالی رکھی اس نے مجھے دیکھ کر سر جھکا
لیا ، پرویز تو نے گجریلہ تو لیا ہی نہیں یا تمہیں اچھا نہیں لگا میں نے شکات بھرے لحجہ میں اس سے پوچھا نہیں باجی میں نے تو لیا ہے گجریلہ اور مجھے پسند ہے روز گجریلہ کھاتا ہوں جو آپ نے گھر بھجوایا تھا ، امی صبح روز ناشتہ میں دیتی ہیں پیجا جلدی جلدی بولا
پرویز کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم مجھے باجی نہ کہو میں نے معنی خیز پیرائے میں أس کو کہا
تو وہ بولا عادت پڑی ہوئی ہے باجی ۔ میں مسکرا دی پھر باجی ،، وہ کھسیانی ھنسی ھنس کے
بولا ’جی باجی ‘ اور میں قہقہہ لگا کر ہنس دی ۔ پیجا شرمندہ سا ہوگیا ۔
میں کولہے مٹکاتی واپس چارپائی پر آکر بیٹھ گئی ۔ اور پیجے کو دیکھنے لگی
باجی میں چلتا ہوں پیجا أٹھتے ہوئے بولا تو میں نے کہا تھوڑی دیر اور بیٹھو میں بھی اکیلی
ہوں رات کافی ہوگئی ہے مگر نیند نہیں آرہی ،۔ جی باجی کہتے ہوئے پیجا پھر کرسی پر بیٹھ گیااور سر جُھکا لیا وہ میری طرف دیکھنے سے اجتناب برت رہاتھا شرمندگی سے یا احترام سے کون جانے ۔ میں نے سردی کے باجود اپنی شال ایک طرف رکھ دی تھی سر پر چنی ایسے
ڈالے کہ دونوں پلو نیچے لٹک کےمیرے جوبن دکھنے میں حائل نہ ہوں ۔
پرویز، وہ چونکا ، میں جب بھی پرویز کہتی وہ حیران سا ہوتا کیونکہ سب اسے پیجا کہہ کر بلاتے تھے حتی کہ اس کی امی بھی ۔ اس نے چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا جی باجی تم کو میرانام معلوم ہے میں نے پوچھا ، جی سیما باجی ، وہ بولا ، نہیں جناب میرانام سیما باجی نہیں سیماب نازیہ ہے ۔ تم مجھے سیما کہہ سکتے ہو میری مسکراہٹ میں ترغیبانہ عنصر بھی ظاھر تھا ۔ جی باج کہہ کر وہ اٹک گیا اور پھر سر جھکا لیا۔تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر میں بولی
پرویز اتنی لمبی رات ہے کوئی بات کرو ۔جی آپ کریں باتیں اس نے میری طرف دیکھا تو میں
نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور بولی کہ مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے تم اگر وعہدہ کرو کہ سچ سچ بولوگے تو پھر سوال کرتی ہوں ورنہ رہنے دیتے ہیں میں نے اس کی نظروں کو
اپنے جوبن پر ٹکا دیکھ کر کہا ، جی آپ پوچھیں وہ بولا ، جو بھی مرضی ہو پوچھ لوں سچ سچ بولوگے ، میں نے تاکیدا کہا تو پیجا بولا جی پرامز ،
دیکھ پرویز کل تک ہم ایک دوسرے کےبارے کچھ بھی نہیں جانتے تھے ، معلوم نہیں ایسا کیوں
ہوا کہ عجیب واقعہ پیش آگیا کہ کچھ ایسی باتیں بھی ہوگئیں کہ جو نہیں ہونی چاہئیں تھیں ، مگر ہونی تو ہو کر رہتی ہے کہ ،پپی کا قط آنا ، تمہارے کتے کا أس کامددگار ہونا ۔۔۔ اتفاق سےمیرا اکیلی اورتنہا ہونا ، اور پھر تمہارا شام کے بعد ہمارے صحن میں ۔۔۔۔۔۔۔
میرا مطلب کہ ہم ایک دوسرے کی کچھ کمزوریوں سے آگاہ ہو چکے ہیں اور جو ایک پردہ
شام تک ہمارے درمیان تھا وہ تم نے اورتمہارے کتے نے گرادیا ہے ۔ میں نے لمبی تمہید
باندھتے ہوئے بات شروع کی ، پیجا شرمندگی اور بیچارگی سےصرف سوری باجی کہہ سکا
نہیں سوری کی ضرورت نہیں میرے خیال میں ایک طرح سے اچھا ہی ہوا اتنا کہہ کر
میں نے پیجےکی طرف دیکھا جو میری بات بڑے تجسس سے سن رہا تھا مگر وہ خاموش رہا
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ،کہ ہم ہمسائے ہوتے ہوئے اجنبی تھے مگر اب
جو پردہ پڑا ہوا تھا وہ نہیں رہا، کیوں کیا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔ میں نے استفشارا پوچھا
جی ایسا تو ہے آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں پیجے نے تصدیق کی ۔
تمہارا کیا خیال ہےکہ ہم کھل کے بات کرسکتے ہیں پرویز؟
جی ہاں ، وہ بولا ، پرویز یوں سمجھو ہم دوست ہیں اور ایک دوسرےکو سمجھے بنا
اچھی دوستی نہیں ہوسکتی کیوں تم کیا کہو گے اس بارے، میں نے اسکی آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے کہا ، جی درست خیال ہے آپ کا أس نے کہتے ہوئے پھر سر ُجھکا لیا
چاہے پیئو گے، بنالاؤں میں نے پوچھا تو پرویز نے منع کردیا ۔چلو ٹھیک ہے میرے
کچھ سوالات ہیں ان کا جواب دینا ہوگا میرے دوست میں نےمُسکراتے ہوئے کہا
جی ، پیجا بولا تو میں نے پوچھا
کیاتم روز رات کو ہمارے صحن میں آتے ہو ، نہیں آج پہلی بار ہی غلطی ہوئی وہ خجالت
سے بولا ۔ پھر آج کس لئے مگر کیوں تم نے دیوار پھلانگی ، میں نے پوچھا
پیجےنےکُرسی پر پہلو بدلا اور بولا جی وہ کتی اور کتا پھنسے ہوئے تھے ان کو دیکھنے
کو آگیا سوری کہتے ہوئے اس نے پھر سرجھکا لیا اور پھربولا دیوار ٹوٹی ہوئی تھی
جب اپنا دروازہ بند کرنے آیا تو وہاں سے یہ دونوں نظر آرہے تھے ،
مگر یہ توکافی دیر سے مگن تھے اور تم اس وقت آئے جب یہ فارغ بھی ہوگئے میں نے
بات ٹوکتے ہوئےکہا ، جی میں ان کو شروع ہی سے دیکھ رہا تھا دروازے کے پاس کھڑے
ہوکر ۔ اس نے کہا، اوہ تو تم ان کے تمام کھیل کے گواہ ہو میں نے معنی خیز ہنسی ہنستے
ہوئے کہا اور وہ نیچے دیکھنے لگا ۔ پیجے تم نے کیا دیکھا مجھے بھی بتاؤ میں نے پوچھا
تو وہ خاموش رہا ، دیکھو پرویز تم نے وعہدہ کیا تھا یہ تو بتانا ہوگا اور اس نے بیچارگی سے میری طرف دیکھا ، جی اور پھر چُپ ، پرویز ایک بات بتاؤں میں خود سب کچھ دیکھ رہی تھی
مگر تم سے بھی سننا چاہونگی ، وہ بولا جب کتا۔ ٹائیگر کو کھولا تو وہ سیدھاآپ کے گھر
آگیا مگر پپی شاید اندر تھی ٹائیگر کچھ مایوس ہوا مگر دروازہ کھلا اور پپی باھر آگئی
پھر یہ ملنے لگے اور میں کھڑا دیکھتا رہا وہ اتنا کہہ کر مجھے دیکھنے لگا ، تو تم نےجب
ان کو ملتے ملاتے دیکھا تو کیا محسوس کیا میں نے سوال کیا ، جی بس کہہ کر وہ خاموش
ہوگیا مگر میں نے دوبارہ پوچھا وہ کچھ نہ بولا تو میں نے بولا دیکھ پرویز میں تمہیں دوست
سمجھتی ہوں اور اپنی حالت بتارہی ہوں امید ہے یہ بات تم کسی سے بھی نہ کہو گے خود سے بھی نہیں
، جب میں نےجھریوں سے دیکھا ان کو اکٹھے تو میں گیلی ہوگئی تھی
اور اب شرماؤ نہیں بتاؤ تمیں کیا محسوس ہوا ،
جی مجھے گرمی لگنے لگی تھی اور ہوشیاری بھی آگئی تھی وہ کچھ گھبراتے ہوئے بولا
یہ ہوشیاری کیا ہوتی ہے ؟، میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا تو أس نے سر جھکا لیا
پیجے میں نے کچھ پوچھا ہےمیں نے مخمور لہحجے میں کہا ۔ جی یہ مردانہ بات ہے
آپ کو سمجھ نہیں آئیگی وہ سرجھکائے بولا ، ارے پرویز تم جانتے ہو دس سال سے میں
شادی شدہ ہوں وہ کونسا مردانہ راز ہے جو مجھ کو نہ سمجھ آئے تم شاید شرما رہےہو
دیکھو جب ان کو پیار محبت کرتےدیکھ کے میں گیلی ہوئی تو میں نے اک ہاتھ ٹانگوں
کے درمیان میں رکھ لیا تھا ، دیکھو میں عورت ذات ہو کر نہیں شرما رہی تو تم مرد ہوکر
سج بولتے کیوں ہچکچا رہے ہو میں نے کہا ، جی جب مرد کا کھڑا ہوجائے تو أسے
ہوشیاری بولتے ہیں وہ سر جھکائے بولا ، میں نے کا مرد کا کھڑاہوجائے مجھے سمجھ
نہیں میں نے چسکا لیتے ہوئے کہا ، جی مرد کا ٹانگوں کے بیچ لٹکتا ہوا لٹوہوشیار ہو کر
کھڑا ہوجانا ہوشیاری کہلاتا ہے ۔ أس نے تشریح کی تو مجھے ہنسی آگئی ۔ اوہ اب سمجھی
تم مردانہ اوزار کی بات کر رہے ہو میں بولی تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا اور پھر پوچھا
تو تم نےلٹو کو ہوشیار دیکھ کر کیا کیا ، میں پُر اشتیاق لحجے میں بولی ، کچھ نہیں وہ بولا
میں نے کہا تم نے سچ کا وعہدہ کیا تھا سچ بولا کیا تم نے چھوا نہیں تھا ، جی چھوا تھا
وہ چھوئ موئی ہوتے ہوئے بولا ۔ تم نے اس کو باھر بھی تو نکالا ہوگا اور کیا کیا میں
نے پوچھا تو تو وہ بولا ٹھیک ہے میں بتاتا ہوں میں نےکہا یہ ہوئی ناں بات مردوں والی اور ہنس دی وہ اب راستے پر آرہا تھا، جی ان کو دیکھ کر مجھے ہوشیاری آگئی اور میں اس کوہاتھ
میں دبانے لگا جب ٹائیگر اند رکرنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں برداشت نہ کرسکا
اور اسے باھر نکال لیا اور ہاتھ میں مُٹھانے لگا پھر جب دونوں پھنس گئے تو میں فارغ ہوگیا
میں نے بات ٹوکتے ہوئے پوچھا، فارغ ہونے کا مطلب؟ تو وہ بولا جی میں نے اپنی طاقت
پیشاب کے راستے نکال دی ۔ اور نلکے سے ہاتھ دھو کر پھر دروازے کے پاس آیا تو وہ دونوں
ایک دوسرے کو چاٹ رہے تھے میں پھر ان کو دیکھنے لگا، میں نے پھر لقمہ دیا کیا اب بھی
تمیں ہوشیاری آئی ہوئی ہے تو اس نے کچھ کہے بنا سر جھکا لیا ، میں سمجھ گئی اس کا کھڑا
ہے ، اچھا تو پھر فارغ ہونےکے بعد تم ہمارے صحن میں کیاکرنے آئے ،میں نے استفشار کیا
تو وہ خجالت سے بولا شیطان نے ورغلا لیا تھا اور غلطی کرنے لگا تھا اس کے ساتھ ہی
اس کی آواز بھرا گئی تھی ۔ مجھے اس پر ترس آگیا اور میں نے کہا پرویز ادھر آؤ میرے پاس
وہ بیٹھا رہا ، میں نے پھر اواز دی پرویز تم نے سُنا نہیں تماری دوست تمہیں بلا رہی ہے
وہ أٹھا اور میری چارپائی کی طرف چلا میری نظر اس کی ہوشیاری پر تھی شلوار
قیص کو ٹینٹ کی صورت میں أٹھائے ہوئے تھی وہ میرے قریب آیا تو اس کا ہاتھ پکڑ کراسے اپنے قریب بٹھا لیااس کے بیٹھتے ہی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور آستہ آیستہ دبانے لگی
پپی پر تم پیار سے ہاتھ پھیر رہے تھے وہ تو ٹھیک ہے مگر اس کی دم کے نیچے
اس کی گُڈو کو بھی تم چھو رہے تھے ، کیوں سج ہے ناں ، جی مجھے نرم اور گرم
اچھی لگی تھی اس نے بتایا، اجھا یہ کہتے ہوئے میں نے اس کا ہاتھ اپنی شلوار
میں لے گئی ، اس نے ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر میں نے اس کو اپنی گُڈو
پر رکھ کر دبائے رکھا ، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مدتوں بعد گُڈو کو راحت
کا احساس ہوا ہو۔ میری ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی اور میں بولی ، پپی کو جیسے کیا
تھا ایسے ہی میری گُڈو پر نوازش کردو ، اور خود اس کا ہاتھ اوپر سے نیچے اور نیچے
سے اوپر کریک پر پھیرا اور اپنا ہاتھ باھ نکال کر آنکھیں بند کرلیں ۔ وہ گُڈو کے دانےسے
لےکر کریک کے آخر تک مساج کرنے لگا اور پھر اس نے درمیانی انگلی کریک کےاندر کردی میں شدت جذبات میں أف کہتے ہوئےاس سے لپٹ گئی ۔ ہم دونوں کی ٹانگیں چارپائی سے نیچے تھیں اور ہم پہلو بہ پہلو بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے شلوار کے اوپر سے أسکے مُنے
پر ہاتھ رکھا تووہ لوہے کا راڈ بنا ہوا تھا اور گرم اور سخت منے کو ہاتھ میں لے کرمجھے چین آگیاجیسے کوئی گم شدہ خزانہ مل گیا ہو ۔ پیجے کیسی لگ رہی ہے میری گُڈو نرم اور
گرم ہے کہ نہیں میں نشے کی سی حالت میں منے کو دباتے بولی ، اس کا انگھوٹھا دانے
پر اور انگلی کریک میں تھی اور وہ بڑے رومان سے بولا آج پہلی بار ایسی نرم و گداز
غار نصیب ہوئی جس میں بسیرا کرلینے کا من چاہتا ہے میں نے کہا یہ غار تمہاری ہے جس
وقت من چاہے سستانے کے لئے آجانا کوئی منع نہ کرے گا میرے پیجو کو یہ کہتے ہوئے
میں نے ہونٹ اس کی طرف کئے تو اس نے آگے ہو کر انہیں چوم لیا میں نے اس کی گردن
میں ہاتھ ڈال کے نیچے جھکایا اور اس کا نچلا ہونٹ ہونٹوں میں لے کر چوسنےلگی اوردوسرے ہاتھ سے اس کا ازار بند کھول کر اس کا مُنا باھر نکال لیا ( منا پیار سےبولا ہے چھوٹا نہیں تھا وہ) اچھا خاصا تگڑا ٹول تھا جو مجھے بائی چانس ہی نصیب ہوگیا تھا ۔ اس کا ٹوپا حیران کن
شیپ کا تھا موٹا بھی لمبا بھی ۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو منہ سے نکال کے کہا پیجے
پپی نے کوئی کپڑا پنا ہوا تھا کیا ؟ نہیں تو پیجا بولا ۔ تو میری شلوار اتار کیوں نہیں دیتے تم
میں نے شاکی ہوکے کہا یہ سنتے ہی میری شلوار نیچے کھسکا کر اس نے اتار دی اور
میں نے شلوار سے آذاد ہوتے ہی ٹانگیں کھول دیں اور منا کو چومنے لگی اس کے ٹوپے
کو زبان سے رگڑتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میرے پیجے کی گود میں جھکنےکی بدولت میری گُڈو پیجا کی ہاتھ سےمحروم ہو گئی ہے ۔ میں نے سر أٹھاتے ہوئے پیجے سے کہا مجھے
لیٹنا ہے میں چارپائی پر لیٹ گئی اور پیجے سے اپنےساتھ لیٹنےکا اشارہ کیا ۔ وہ لیٹنے لگا
تو میں نے أٹھ کر اس کی شلوار کھیچ کر اتار دی اور اپنی قمیض بھی اتار دی میں نیچے
کچھ نہیں پہنتی میں بالکل برھنہ حالت میں پیٹھ کے بل چارپائی پر لیٹی اور رضائی اوپر لےلی

پیجا کو میں نے لیٹنے کا شارہ کیا اور اسکے لیٹنے سے پہلے اوپر أٹھ کر اس کی شلوار
نیچے کردی ۔ اس کا مُنا بڑی شان سے سر أٹھائے جھوم رہا تھا میں اس کی أٹھان اس کے ٹوپے کا بانکپن دیکھ کر رہ نہ سکی میں نے اسے ہاتھ میں بھر لیا اور أس کو دائیں بائیں اوپر نیچے کرکے محظوظ ہونے لگی اسکے ٹوپے کو بے اختیار پیار کرتے ہوئے میں نے اوپر سے اسکی جڑ تک جڑ سے اسکی نچلی رگ کو چاٹ کرخراج عقیدت پیش کیا میری گڈوی پیجا کے ہاتھ اور انگلی سے پہلے ہی پانی پانی ہو رہی تھی ۔ أسے دکھ کر بہنے لگی تھی اور اس کے لب اسے کے استقبال کے لئے تھرکنےلگے تھے ۔ گڈوی کے اندر اتنی گرمی تھی سب کچھ گرم ہوچکا تھا میں نے بڑھ کر پیجے کو اپنے اوپر کھینچ لیا اور اسکی بالوں بھری چھاتی سے لگ گئی پیجا کی ججھک دور ہوتی جارہی تھی ۔اور اس نے لیٹ کر مجھے بھینچ لیا ۔ میں نےاس کےچہرے گردن پر بوسوں کی یلغار کردی اس کا منا اب میری رانوں سے ٹکرانے لگا میں نے اسےٹانگوں میں لینے کے لئے ٹانگیں کھول دیں اوروہ اپنی مستی میں ٹانگوں میں سر پٹخنے لگا ۔ پیجے نے پیش قدمی کرتے ہوئے میرےلبوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور میں زبان کی نوک سےاس کےہونٹوں کو چھیڑنے لگی پیجے نے میری زبان کو اپنی سےزبان سے ٹچ کیا میں اس کی زبان چوسنے لگی۔ بعد مدت کے ایک رات ملی تھی اور میں اسے یاد رکھنے والی راتوں میں سے ایک رات بنا دینا چاہتی تھی ۔ نیچے منا ادھر ادھر سر مار رہا تھا میں نے اسے ایک ہاتھ میں لے لیا اور دبانے لگی اس کا ٹوپے سے رس ٹپک رہا تھا اسے انگلی سے صاف کرکے انگی اپنی زبان پر رکھ دی اف کیا ترش ذائقہ تھا اس نےپیاس مزید بڑھادی میں نے پیجے کا ایک ہاتھ پکڑکر اپنی گڈوی پر رکھ دیا اور دوسرا ہاتھ اپنی گولائیوں پر ۔ پیجے کو بھری بھری گولائیاں شاید اچھی لگیں اس نے مجھے چت لٹاکر اپنے ہونٹ گولائیوں کے ڈوڈوں پررکھ دئیے کبھی ایک ڈوڈے کو وہ چومتا تو کبھی دوسرے ڈوڈے کو چوستا ۔ میں شاید مزے کے جزیرے میں آگئی تھی سواد کا دیوتا شاید بعد ایک مدت مہربان ہو چکا تھا ۔ میں غنودگی کے عالم میں اپنا سب کچھ پرویزپر لٹا دینا چاہتی تھی ۔ میں نے پیجے کے سر کے بالوں کو پکڑ کر پیجا کے منہ گڈوی کے پاس جا رکھا ۔ پیجا سمجھ گیا اس نے اپنے ہونٹ گڈوی کے منہ سے لگا دئیے میرے منہ سے أف ظالم نکلا اور میرے سانسوں کی رفتار دگنی ہوگئی میں اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز سننے
لگی ۔ میں نے اٹھ کر پیجے کا سر اٹھا کر اس کے ہونٹ پر لگا اپنا ہی رس چوسنے لگی میں
میں أٹھ کر بیٹھ گئی اور پیجے سے کہا پیجا جانتے ہو یہ موقع ہمیں کیسے ملا ، وہ چپ رہا
شاید میری بات نہ سمجھ سکا تھا۔ میں نے اس کے منے سے کھیلتے ہوئے کہا جیسے تم اب
تک کسی لڑکی سےواقف تک نہ تھے اسی طرح میں بھی مرد کے لئے ترس گئی تھی اور ہم جو اس وقت ایک ہی چارپائی پر مادر زاد برہنہ ہیں تو یہ کتے اور کتیا کی وجہ سے ، ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہئیے ، جی باجی صحیح کہا آپ نے ، پھر باجی میں نے پیجا کی چٹکی لیتے ہوئے اب بھی باجی کہا ۔ پیجےکہہ سیما ۔ سیما پیجا جھجک کے بولا چل کہہ سیمو ، اس نے کہا سیمو میں نے جواب دیا جی کراں پیجو ۔ میں نے مسکرا کر جواب د یا ۔ اور اسے بولا کہ آئندہ اکیلے میں تم سیمو بولنا اور میں تمہیں پیجو بولاؤں گی ، اس نے سیمو کہہ کر سر ہاں میں ہلادیا
اچھا تو ہم کیابات کررہے تھے پیجو ، وہ کہ ہمیں کتے کتی کا ممنون ہونا چاہئیے ، ہاں ان کو
خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہمیں کم از کم ایک بار تو ان جیسا ہی کرنا چاہئیے ،
ٹھیک ہے سیمو پیجو بولا تو میں کتیا بن گئی تو پیجو پیجھے سے میری ٹانگوں میں آگیا ۔ اب اس کا خیال تھا کہ سٹارٹ ہوجائے مگر میں بولی پیجو پہلےسونگھو تو سہی ، اوہ صیح ہےباجی ، پھر باجی ارے تم سیمو کیوں نہیں کہتے ، اوہ سوری سیمو اور جھک کر میری گڈوی کو سونگھنے لگ گیا ، میں نے کہا اب اسے تھوڑا سا زبان سے چاٹو ، اس نے کا کیا یہ ضروری ہے تو میں نے کہا کتا ایسا کرتا ہے ۔ میں کتیا ہوں اور تو کتا ۔ ٹھیک ہے سمجھے میں نے تصحیح کی ، جی سمجھ گیا سیمو اور اپنی زبان میری گڈوی سے لگا دی ، اف میری گڈوی پہلے ہی بہہ رہی تھی اب اس کی زبان نے اک طوفاں أٹھا دیا میں نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں لے لیا اور مزے کے خمار میں اوول فوول بکنے لگی پیجو کو شاید ذائقہ اچھا لگا وہ بڑے شوق سےچسکاریاں لینے لگا اس کی زبان کو مزید برداشت کرنے کی مجھ میں ہمت نہ رہی تھی ۔ میں نے ہاتھ پیچھے کر کےاسے بالوں سے پکڑکرکھینچا تو میری ٹانگوں میں وہ گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا جبکہ میں تو کتیا بنی ہوئی تھی ۔ میں نےسرگھما کر پوچھا پیجو تجھے گھٹنے پر درد تو نہیں ہورہا ایسے کھڑے ہوئے ، اوہ نہیں جی وہ تھوڑا اوپر ہے زخم ۔ وہ بولا ۔ چلو ٹھیک ہے میں نےکہا چل اب کتیائی شروع کریں ، جی کہہ کر اس نے اپنا لٹو میری گڈوی پر رکھ دیا ۔ میری گڈوی نہ جانے کب سے اس ٹچ کو ترس رہی تھی میں نے سکوں کا سانس لیا اور پیجو سے بولی ، تمہیں پتا تو ہے کتا کتیا کیسے کرتے ہیں ، پہلے دس پندرہ بارہ اوپر سے تھوڑا دبانا اور سکن سے سکن کو ٹکرانا ہے اندر نہیں کرنا جیسے کتا اپنا باھر نکالنے کےلئے باربار کتیا کو ٹچ کرتا ہے ،
جی سمجھ گیا ، وہ اوپر رکھ کے دباتا اور ھٹالیتا میں نے اسے روکا ، اور کہا کہ پیجو تم دونوں ہاتھ میری کمر میں ڈال لو اوراپنے راڈکو خود سر پیٹنے دو دس بار کی کوشش سے وہ پھسل کے رسوئی میں ہوگا ۔ اس نے ایسے ہی کیا جب بھی اسکا راڈ میری گڈوی کو لگتا تو گڈوی اسے لینےکے لئے بےتابی سےاپنے لب کھول دیتی مگرمسافر گبھی ایک طرف جا نکلتا
اور کبھی دوسری جانب کبھی ادھر پھسل جاتا کبھی ادھر۔ آخر گڈوی کی سُنی گئیی اور منا پھسل کر گڈوی میں جا اٹکا ، پیجا شاید اب صبر کھو بیٹھا تھا اس نے زور سے جو پسٹم دبایا تو منا آخرجا ٹکرایا دوسرے کونے پر۔ میرے انگ انگ میں مزہ کی لہر دوڑ گئی اور میں نہال ہوگئی منا ٹارگٹ کو کھجا رہا تھا مجھے مزا اور سواد کے ساتھ ساتھ ایسے خوشی ہو رہی تھی جیسے اچانک کوئی پردیسی گھر آگیا ہ جس کی رات دن انتظار رہتی ہو پیجو کا لٹونے میری گُڈوی بھردی تھی محسوس ہونے لگا جیسے مکمل ہونے جا رہی ہوں ۔ میں نے پیجو سے کہا لمبے سٹرک نہیں لگائے بلکہ کتے کی طرح اندر ہی چوٹ مارے یعنی پیچھے زیادہ نہ کھینچے ، میں جانتی تھی یہ پیجو کے لئے مشکل ہوگا اور مجھے بھی دو چار کرارے سے دھکوں کی اشد ضرورت تھی ہم نے ایسے کرنا جیسے کتا کتی کرتے ہیں پیجو مجھے کمر سے پکڑے جلدی جلدی چھوٹے سٹروک مارنے لگا اور میں مزے کی جانب جانےلگی مجھے لگا کہ میری جان نکل رہی ہےاور پیجو کا کھجاتا لٹو سیدھا صحیح ٹارگٹ سے ٹکرا رہا تھا میں نہال بے حال ہوتے آخر منزل ہوگئی میں نے آج شاید منزل سر کرلی تھی میں نے اب پیچھےکی طرف زور لگانا شروع کردیا اور پیجو نےبھی ڈکراتے ہوئے اپنا مواد سواد سمیت میری گڈوی میں ڈال کرہانپتے ہوئےمجھ پرہی گر گیا ۔ میں ٹانگیں سیدھی کرکے پیٹ کے بل ہی لیٹ گئی اور پیجو بھی مجھ پر لیٹ گیا ۔ ابھی تک اس کا لٹو میری گڈوی کے اندر ہی تھا اور مجھے اس کے آہستہ آہستہ سکڑنےکا احساس ہو رہاتھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں میری گڈوی سے وہ بچھڑ کرباھر نکل گیا

کچھ دیر کےلئے میں مدھوش ہوگئی پیجوکے اوپر لیٹے ہونے کی وجہ سے مجھے بہت اچھا
محسوس ہو رہا تھا ۔ میرا جسم میٹھی میٹھی تھکن سے چُور ہو رہاتھا شام سے اب تک
ایک ٹینشن کشمکش اور اخرکار کُتیائی عمل سے گذرنے کے بعد یہ حال تو ہونا تھا ۔ مگر
اس میٹھی سی تھکن کی نہ جانے کب سے ترسی ہوئی تھی اور اب اچانک ایسی خوشی
ملی کہ سب کمیاں پوری ہو گئیں اور آئند مستقبل میں ایسی خوشیوں کاسوچ کر میں نہال
ہوتی رہی ۔ میں آہستہ آہستہ پیجے کے نیچے سے نکلی وہ بھی شاید غنودگی میں تھا۔
اور آہستہ سے کروٹ لےکر پیٹھ کے بل لیٹ گیا اس کو دیکھ کر بے ساختہ مجھے پیار
آگیا ۔ میں اسے چومنے لگی اس کی پیشانی سے لے کر اس کے نپل تک اوروہ أٹھ گیا
اور نشیلی نظروں سے مجھے گھورنے لگا اچانک اس نے مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا
Image result for indian dasi sexImage result for indian dasi sex

Share:

1 comment:

  1. kis kis larki aunty baji bhabhi nurse collage girl school girl darzan housewife ledy teacher ledy doctor apni phodi mia real mia lun lana chati hia to muj ko call or sms kar sakati hia only leady any girl only girls 03065864795

    ReplyDelete

Search This Blog

Powered by Blogger.

Blog Archive

Labels

Recent Posts

Unordered List

  • Lorem ipsum dolor sit amet, consectetuer adipiscing elit.
  • Aliquam tincidunt mauris eu risus.
  • Vestibulum auctor dapibus neque.

Pages

Theme Support

Need our help to upload or customize this blogger template? Contact me with details about the theme customization you need.